. د امجد على اتمان خېل ليک
1914 اور 1935 کے دوران جب پہلی بار ملاکنڈ ایجنسی کے علاقوں کوٹ اور آگرہ میں لیوی فورس کی چوکیاں قائم کی گئی,تو ان چوکیوں کی وساطت سے پھر ,کوٹ,آگرہ,سیلئ پٹے اور ٹوٹئ کے علاقوں پر برٹش سامراج نے Raids کئے, اس وقت آپ آگرہ کے قریب برٹش رجمنٹ کی کیمپ کی ایک تصویر دیکھ رہے ہیں,جبکہ دوسری تصویر میں پہاڑی میں سڑک کی تعمیر جاری ہے,تاکہ اس سڑک پر سے پھر آگرہ ,کوٹ,ٹوٹیئ تک رسائی حاصل ہوں.ان حملوں کی بُنیادی وجہ یہ تھی.کہ ملاکنڈ ایجنسی کے ڈھیری گاؤں کے شیر مالک نامی شخص کا بیٹا اور ایک ہندو لڑکی محبت کی خاطر گھر سے بھاگ کر آگرہ گاؤں میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے,ہندو لڑکی کے ماں باپ نے ملاکنڈ پولٹیکل انتظامیہ سے شکایت کی کہ شیر مالک نامی شخص کے بیٹے نے اُنکی بیٹی کو اغواء کیا ہے..جس پر پولٹیکل ایجنٹ ملاکنڈ ایجنسی مسٹر بیسٹ نے آگرہ کے مشران کو حُکم دیا کہ اُس لڑکے اور لڑکی کو انتظامیہ کے حوالے کریں.لیکن آگرہ کے مشران اس بات پر تیار نہ ہوئے,جس پر مسٹر بیسٹ نے لیویز فورس کی وساطت سے آگرہ پر یلغار کی.آگرہ کے ساتھ ٹوٹی ,سیلئ پٹے اور کوٹ کے لوگ بھی مدد کرنے کے لئے آں پہنچے,دوسری طرف فقیر اُلنگر بھی افغانستان سے ان لوگوں کی مدد کے لئے آیا. ,جنگ کی صورت حال پیدا ہوئی.مسٹر بیسٹ خود برٹش فورس کی کمان کر رہا تھا,جیسے ہی وہ آگرہ گاؤں پہنچا, تو فوراً ایک شموزئی غازی محمد بابا کی گولی کا نشانہ بنا,اور موقع پر ہی مر گیا,مسٹر بیسٹ کی لاش پھر ہریانکوٹ گاؤں لائی گئ.یہاں سے پھر پشاور پہنچا کر گورا قبرستان میں دفنائی گئی..سیلئی پٹی کے مقام پر ملاکنڈ لیویز کے دو اہلکار گل حسن اور نوراب گل سکنہ کوٹ اور اسکے ساتھ دیر لیویز کے دو اہلکار زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے..بعد میں آگرہ گاؤں پر جنگی جہازوں سے بمباری کی گئ.مجبوراً آگرہ کے مشران اُس ہندو لڑکی اور لڑکے کو ملاکنڈ انتظامیہ کے حوالہ کرنے پر تیار ہوئے..ہندو لڑکی کو اُسکے ماں باپ کے حوالہ کیا گیا,اور شیر مالک کے بیٹے کو قید میں ڈالا گیا...
تحقیق امجد علی اُتمان خیل بحوالہ فدا حسین نواسہ غازی بابا شموزئی.
0 Comments