Utmankhel British Era

تاریخ کو یاد رکھنا ہے..کوئی آپ سے یہ سوال پُوچھے کہ شمال مغربی سرحدی علاقوں( ,ملاکنڈ,باجوڑ,مہمند,مردان) میں برٹش سامراج کے خلاف گوریلا جنگ لڑنے کی شروعات سب سے پہلے کِس نے کی.تو بس ایک جواب ذہن میں یاد رکھے..یہ قبیلہ اُتمانخیل کے غازی تھے .کہانی شروع ہوتی ہے باجوڑ تحصیل خار کے گاؤں ناوے ڈنڈھ سے,یہاں اُتمانخیل قبیلہ کی ذیلی شاخ بُوٹ کور آباد ہے ,ناوے ڈنڈھ کے مشرق کی جانب ارنگ برنگ کے اُتمانخیل آباد ہے,اسکے ساتھ ساتھ قبیلہ اُتمانخیل کی ذیلی شاخیں دریائے پنجکوڑہ اور دریائے سوات کے جنوبی کناروں پر پڑانگ غار,گنڈھیری,نری اُوبو,سپین خڑی,ناوے ڈنڈھ, کوٹ ,ٹوٹئ,آگرہ ,مینہ ,اور ہریانکوٹ ( جو امجد علی اُتمانخیل کا آبائی گاؤں ہے) میں آباد ہیں.اُتمانخیل سادہ,صاف گو,بہادر,جنگجو پشتون ہیں. برٹش سامراج کے آنے کے بعد اگر دوسرے قبائل برٹش سامراج کے ساتھ اپنے علاقوں میں لڑائیاں لڑ رہے تھے,تو دوسری طرف قبیلہ اُتمانخیل کے غازی اپنے علاقوں سے دور پشاور اور مردان میں موجود برٹش سامراج کے کیمپوں پر حملے کرتے,یہ 1851 کی کہانی ہے وادی پشاور اور یوسفزئی کے علاقوں کی سرحدی حدود کی پیمائش کرنے کے لئے مسٹر جیمز نامی انگریز اپنی گائڈز پلاٹون کے ساتھ گوجر گڑھی مردان میں خیمہ زن تھا.اُس وقت گائڈز پلاٹون کی کمان رسالدار فتح خان کر رہا تھا,رات کا وقت تھا جب قبیلہ اُتمانخیل کا ایک بہادر مُکرم خان اُتمانخیل ناوے ڈنڈھ سے دو سو سواروں کے ساتھ گوجر گڑھی پُہنچا اور برٹش کیمپ پر حملہ آور ہوا. مسٹر جیمز اُس رات کسی اور جگہ موجود تھا,اس وجہ سے وہ مُکرم خان اُتمانخیل کے حملے میں محفوظ رہا,جبکہ رسالدار فتح خان سخت زخمی ہوا,اور اور گائڈز پلاٹون کے بُہت سے سپاہی اس حملے میں اپنی جانوں سے ہاتھ دُھو بیھٹے. سر جارج ینگ ہزبنڈ مُکرم خان اُتمانخیل کے بارے میں لکھتے ہے.کہ مُکرم خان اُتمانخیل جو سرحد کا نہایت دلیر اور مشہور جنگجو تھا. مُکرم خان اُتمانخیل کی برٹش سامراج پر گوریلہ حملے کی یہ پہلی شروعات تھی . دوسرا حِصّہ...جب برٹش رجمنٹس نے چارسدہ تنگئ کے مقام پر پڑاؤ کیا, تو پھر اُنہوں نے قبیلہ اُتمانخیل کے مشہور گاؤں پڑانگ غار پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا. یہ گاؤں ہشتنگر ,امبار مہمند اور پنڈیالئ مہمند کے نزدیک واقع ہے. برٹش سامراج کا بُنیادی مقصد یہاں میدانی علاقوں میں اّباد اُتمانخیل کی طاقت کو کُچلنا تھا. پڑانگ غار پر برٹش سامراج نے جو حملہ کیا تھا,اُسکے بارے میں تاریخِ صولتِ افغانی یوں لکھتے ہیں. تنگئ کے علاقے میں برٹش سامراج پہلے سے آچکا تھا,پانچ ہزار فوج کو اور اکھٹا کیا. جبکہ اُنکے مدِ مُقابل اُتمانخیل قبیلہ کے جنگجو تھے جنکی امداد کے لئے راوانی قبیلہ بشمولِ سید اکبر شاہ بھی رانزئی سوات سے لشکر لیکر آئے. اور ان سب کی تعداد تین ہزار تھی. مئ 1852 میں برٹش آرمی کرنل کولن کیمپبل ( لارڈ کلائڈ) کی کمان میں اُتمانخیل قبیلے پر گنڈیرئ اور آبازئی گاؤں کے درمیان واقع میرہ تنگی کے شمالی جانب سے حملہ آور ہوئی. اور اُتمانخیل قبیلہ کے مشہور گاؤں پڑانگ غار کا مُحاصرہ کیا. کئ دن تک جنگ جاری رہی. برٹش انڈین آرمی گاؤں میں داخل ہوئی اور آبادیاں تباہ کردی. جبکہ آگے پھر پہاڑی دروں میں جانے کی تاب نہ رکھ سکے,اسلئے واپسی کی راہ اختیار کی,اور آبازئی گاؤں میں داخل ہوئے,یہ گاؤں دریائے پنجکوڑہ کے کنارے مہمند و اتمانخیل کے سرحد پر ہشتنگر سے اُونچائی پر واقع ہے.یہاں برٹش سامراج نے قلعہ تعمیر کیا. اُنکا بنیادی مقصد قبیلہ اُتمانخیل اور مہمند کے حملوں سے ہشتنگر کو بچانا تھا,چونکہ اُتمانخیل قبیلے کا ساتھ روانڑی قبیلہ نے بھی دیا تھا,اسلئے برٹش سامراج نے پھر روانڑی قبیلہ کے مرکزی گاؤں گنڈیرئ پر بھی یلغار کی اور اسے تباہ و برباد کرکے رکھ دیا. بعد میں روانڑی قبیلے کے لوگ پشاور کے پولٹیکل ایجنٹ کرنل میکسن کے ساتھ ایک معاہدہ نمبر 79 پر دستخط کرنے پر راضی ہوئے,جسکی رو سے روانڑئ قبیلہ نے گنڈیرئ سے کوچ کی اور جلالہ مردان کے میرہ میں رہائش اختیار کر گئے. دوسری طرف قبیلہ اُتمانخیل نے 1852 کے اواخر میں برٹش سامراج پر دوبارہ حملے کرنے کا پروگرام بنایا,برٹش سامراج نے آبازئی میں جو قلعہ تعمیر کیا تھا اُس پر حملہ آور ہوا اور آگ لگا کر اُسے جلا دیا,اُتمانخیل قبیلے نے یہ حملہ دو اطراف سے کیا تھا,ایک حملہ مٹہ مُغل خیل اور شبقدر کی طرف سے کیا,اور دوسرا حملہ تنگئ,گنڈیرئ اور بہرام ڈھیرئ کی اطراف سے کیا. اور یہاں برٹش سامراج کی جتنی چھاؤنیاں تھی اُن پر قابض ہوئے... کہانی جاری ہے. نوٹ یہاں آپ کو بتائے..روانڑئی قبیلہ کے لوگ جب گنڈیرئ سے جلالہ مردان آئے تو اُس میں پیرانوں کا ایک خاندان بھی تھا,جو حضرت اخوند محمد قندہاری کاکڑ کے بیٹے پیر محمد صالح المعروف پیر صالح کی اولاد ہے ,پیر صالح کا مزار طورو مردان میں ہے. یہ گھرانہ روانڑی قبیلے کا آستانہ دار ہیں. جبکہ روانڑی قبیلہ کے ساتھ ایک اور گھرانہ اخوندازگان کا بھی آیا تھا.جو حضرت میاں صاحب عُمر څمکنوں کے مشہور مُرید اخوند صوفی عبدالرحمن کے دو بیٹوں اخوندزادہ محمد صدیق اور اخوندزادہ محمد رفیق کی اولاد ہیں. بحوالہ ہمارے مُجاہدین برٹش سامراج نے ابازئی کے مقام پر جو قلعہ تعمیر کیا تھا, اُتمانخیل قبیلے نے اُس پر حملہ کرکے آگ کی نظر کردیا.یہ حملہ قبیلہ ُاُتمانخیل نے دو اطراف سے کیا تھا,ایک حملہ مٹہ مُغل خیل اور شبقدر کی طرف سے کیا اور دوسرا حملہ تنگی,گنڈھیرئ اور بہرام ڈھیری کی اطراف سے کیا. اور یہاں جتنی برٹش آرمی کی چوکیاں تھی اُس پر قابض ہوگئے.برٹش سامراج اُتمانخیل قبیلے کے ان حملوں سے پریشان ہوا کہ اُنہوں نے اُتمانخیل قبیلے کے خلاف ایک اور برٹش کالم کیپٹن پیٹی کی کمان میں بھیجی .جنہوں نے اُتمانخیل قبیلے کے خلاف مُختلف مقامات پر لڑائیاں لڑی,اُتمانخیل قبیلے کے خلاف برٹش سامراج کی مُہم جوئیوں کا سلسلہ 1869 تک جاری رہا.1869 ہی میں برٹش سامراج نے مہمند قبیلے پر حملہ کردیا.دوسری طرف جو جنگ پہلے پہل اُتمانخیل قبیلے کی شاخ بوٹ کور اور غاڑے اُتمانخیل نے برٹش سامراج کے خلاف شروع کی تھی.وہ طول پکڑنے لگا. اور اس جنگ میں پھر شمولیت کے لئے ارنگ,برنگ ,اصیل ,سرنی خیل,عُمر خیل,متکی,شموزئ,ماندل,علی زئی,اور رانڑیزئی قبائل بھی میدان میں آگئے.اور ناوے ڈنڈھ,نرئی اوبہ,سپین خڑو,شکور,ناساپئ,ہیروشاہ کوپر کے راستوں برٹش سامراج کے چوکیوں پر حملے شروع کردئے. دوسری طرف رانیزئی قبائل کے سرحدی علاقوں اور مردان کے سرحد پر شمال مشرق کی جانب ورتیر ,خرکئی,برمول,کوھی,پیپل,میاں خان,سنگاہوں, میں آباد اُتمانخیل بھی اُٹھ کھڑے ہوئے اور اُنہوں نے بائزوں کے علاقے میں موجود برٹش سامراج کے چوکیوں پر حملے شروع کر دئے.اُتمانخیل قبیلے کی ان حملوں کی زد میں برٹش سامراج نے 1879 میں دو جرنیلوں لیفٹیننٹ جرنل کولن کیمپبل اور لیفٹیننٹ کرنل ایف ایچ چنکنز کی کمان میں فوج اُتمانخیل قبیلے کے خلاف بھیجی. جنگ ہوئی جو آخر نے برٹش سامراج نے اپنی مکارانہ پالیسی کے ذریعے صلح کرکے ختم کردی,کیوں کہ اُس وقت برٹش سامراج کو افغانستان کی جانب سے بھی چیلنجز درپیش تھی .یہاں یہ بتاتا چلو کہ 1866 میں برٹش سامراج نے ایک حملہ مشرقی اُتمانخیل کے علاقوں پر کیا تھا اور اُنکے گاؤں ہاتھیوں کے ذریعے مسمار کئے تھے ,اس جنگ میں برٹش انڈین رجمنٹ گائڈز پلاٹون کا ایک رسالدار فتح خان خٹک ایک بہادر غازی اُتمانخیل کے ہاتھوں مارا گیا تھا.. بعد میں برٹش سامراج نے ڈپلومیسی اپناکر اُتمانخیل قبیلے پر سخت پابندیاں لگائی اور اُنکوں کہاں کہ وہ پہاڑوں کے دامن میں گاؤں آباد نہیں کرے گے.یہی وجہ تھی.جب 1879 میں اُتمانخیل قبیلے نے پھر برٹش سامراج سے انتقام لینے کے لئے بائزوں کے علاقے میں موجود برٹش آرمی کے چوکیوں پر حملے کئے. یہ سلسلہ پھر 1897 تک جاری رہا,پھر جب سارے قبائلی علاقوں میں برٹش سامراج کے خلاف غم و غصے کی لہر پھیلنے لگی تو وزیرستان سے ملاکنڈ تک عوام برٹش سامراج کی غلامی کا طوق گِرانے کی خاطر میدان میں نکلے..ملاکنڈ میں چونکہ اُتمانخیل کا علاقہ سمہ رانیزئی اور سوات رانیزئی کی سرحدوں پر پھیلا ہوا ہے. اسلئے یہاں بھی اُتمانخیل قبیلے کے عوام انگریز کے خلاف میدانِ جنگ میں نکل آئے.ملاکنڈ کی مشہور جنگ ( سرتور فقیر کی سربراہی میں 1897 میں لڑی گئ) میں قبیلہ اُتمانخیل کے غازیوں نے سوات,دیر,باجوڑ اور مہمند قبائلی لشکر کے ساتھ ملکر برٹش سامراج کو تگنی کا ناچ نچایا..ملاکنڈ کے محاذ پر اس جنگ کی اہمیت اتنی زیادہ تھی,کہ بعد میں سلطنتِ برطانیہ نے ملاکنڈ کے محاذ پر بہادری کے جوہر دکھانے والے برٹش آرمی کے آفسروں لیفٹیننٹ میکلین,,لیفٹیننٹ کرنل ایڈمز,لیفٹیننٹ وسکاؤنٹ فینکاسل اور لیفٹیننٹ کاسٹیلو کو وکٹوریہ کراس سے نوازا.. کہانی جاری ہے. بحوالہ ہمارے مجاہدین از عبدحلیم اثر افغانی..و سرتور فقیر جنگِ ملاکنڈ 1857 کا عظیم مرد مجاہد تاریخ کو یاد رکھنا ہے..1897 میں جب برٹش سامراج نے وزیرستان میں قبائلی عوام کے خلاف محاذ آرائی شروع کی.تو یہ آگ ملاکنڈ ایجنسی تک بھی پھیل گئی.یہاں سرتور فقیر کی سرکردگی میں ملاکنڈ ایجنسی کے قبائل نے چکدرہ اور ملاکنڈ کے قلعوں پر یلغاریں کی. چونکہ قبیلہ اُتمانخیل کا علاقہ سمہ رانیزئی اور سوات رانیزئی کے سرحدوں پر پھیلا ہوا ہے.اسلئے قبیلہ اُتمانخیل بھی ملاکنڈ کے اس جنگ میں شریک رہا,پھر جب جنگ ختم ہوئی,تو برٹش سامراج نے قبیلہ اُتمانخیل کے خلاف پھر محاذ آرائی شروع کی کیونکہ برٹش سامراج کو احساس ہوچکا تھا کہ جنگِ ملاکنڈ میں اُتمانخیل قبیلے کا کردار بُہت زیادہ تھا,چنانچہ 1897 کے آواخر نے برٹش سامراج نے کرنل ریڈ کی کمان میں قیلہ اُتمانخیل کے علاقوں پر دو اطراف سے حملہ کیا.برٹش فوج کا ایک حِصہ دریائے سوات کے کنارے قلنگئ درہ سے گُزر کر آگرہ,کوٹ,ٹوٹئ اور مینہ کی طرف آیا ,اور فوج کا دوسرا حِصہ درگئی کے میدانوں سے ہوکر کر اُتمانخیل کے پہاڑوں کو پار کرکے ناوے ڈنڈھ,سپرئی,بوچہ اور پڑانگ غر پر حملہ آور ہوا,ناوے ڈنڈھ میں موجود قبیلہ اُتمانخیل کے مشہور قلعے پر یلغار کرنے کے بعد اسے فتح کردیا.اس قلعہ کو فتح کرنے کی وجہ یہ تھی,چونکہ قبیلہ اُتمانخیل کے لشکر کا ایک حِصہ آگرہ,ٹوٹئی,کوٹ,مینہ میں برٹش سامراج کے خلاف نبردآزما تھا,اسلئے ناوے ڈنڈھ میں اُتمانخیل قبیلے کی طاقت کم رہی.اور برٹش سامراج کے خلاف قلعہ کا دفاع نہ کرسکے,ناوے ڈنڈھ کے بعد برٹش سامراج نے سپرئی اور پڑانگ غر میں بھی آبادیوں کو اپنی بربریت کا نشانہ بنایا. بعد میں برٹش سامراج نے سمہ رانیزئی اور سوات رانیزئی کے سرحدوں پر واقع قبیلہ اُتمانخیل کے گاؤں کوٹ,مینہ,ٹوٹئ,آگرہ کے عوام کے ساتھ سخت شرائط پر صُلح نامے کئے,کہ یہ ملاکنڈ ایجنسی میں پولٹیکل انتظامیہ کے ساتھ ربط رکھے گے.اور اسکے ساتھ ساتھ اُن سے جرمانہ بھی وصول کیا. 1907 میں قبیلہ اُتمانخیل اور رانیزئی کے درمیان اختلاف پیدا ہوا. پہلے برٹش سامراج نے ان دونوں قبائل کو آپس میں لڑوایا,اور پھر ان دونوں قبائل کے درمیان راضی نامہ کیا,اس راضی نامہ میں ملاکنڈ ایجنسی کی پولٹیکل انتظامیہ نے قبیلہ اُتمانخیل پر اور بھی سخت شرائط عائد کی.1908 میں پھر علاقہ امبار کے اُتمانخیل پشاور میں موجود برٹش سامراج کے قائم چوکیوں پر حملے کرنے لگے. جسکے تناظُر میں ملاکنڈ ایجنسی کے پولٹیکل ایجنٹ کرنل ایس ایچ گاڈفرے کی کمان میں انگریز فوج نے پڑانگ غر کے اُتمانخیل پر حملہ کردیا,اور اُسکے ساتھ ساتھ جگہ جگہ قبیلہ اُتمانخیل کے علاقوں کی ناکہ بندی بھی کی. آخر میں جرگہ ہوا اور جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط ہوئے. 1911 میں غاڑے کے اُتمانخیل کے آپس میں اختلافات پیدا ہوئے جو جنگ کی صورت اختیار کر گئے,اس جنگ میں اُتمانخیل قبیلے نے انگریز کی چوکیاں کو بھی جگہ جگہ تباہ کیا,یہ سلسلہ جاری رہا,1913 میں امبار اور غاڑے کے اُتمانخیل نے ہشتنگر کے مشہور گاؤں اُتمانزئی پر یلغار کی اور وہاں انگریز فوج کی چوکیوں کو تباہ کیا,ان واقعات نے قبیلہ اُتمانخیل کی ہمت اور بڑھادی اور اُنہوں نے پشاور تک جگہ جگہ موجود انگریز چوکیوں پر حملے شروع تاریخ کو یاد رکھنا ہے.1930 میں پھر جب سیاسی تحریکوں کا اثر قبائلی علاقوں تک پھیلنے لگا,تو اُتمانخیل کا علاقہ بھی اسِ کے زیرِ نگیں آیا ,ارنگ برنگ اصیل کے اُتمانخیل اور امبار بُوٹ کور کے اُتمانخیل آگرہ اور پڑانگ غار کے علاقوں تک آئے,اور ھشتنگر کے سرحد جیندری خوڑ کے کنارے مورچے سنبھالے ,برٹش سامراج نے فوراً انکے خلاف لشکر کشی کی, آگرہ اور پڑانگ غر کے مقامات پر جنگیں لڑی گئ.آگرہ کے مقام پر جو جنگ لڑی گئ اُسکی کہانی یوں ہے..اس وقت آپ تصویر میں ملاکنڈ ایجنسی کے پولٹیکل ایجنٹ L.W.H.D Best کی قبر دیکھ رہے ہے.. آپکا پورا نام لیزلی ولیم ہیزلٹ ڈنکین بیسٹ ہے,اور آپ7جنوری 1933 تا 11 اپریل 1935 تک ملاکنڈ ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ رہے..آپ کو موت کا فرشتہ ملاکنڈ سے آگرہ گاؤں لے آیا. یہ کہانی یوں ہے ,کہ جب ملاکنڈ لیویز فورس کے دو چیک پوسٹ پہلے پہل 1914 اور 1935 میں ملاکنڈ ایجنسی کے گاؤں کوٹ اور آگرہ میں قائم کئے گئے,تو ان چیک پوسٹو ں کی وساطت سے پھر برٹش سامراج نے کوٹ ,آگرہ,ٹوٹی ,سیلئ پٹے کے علاقوں پر Raids کئے .ان حملوں کی وجہ یہ تھی.کہ ایک ہندو لڑکی کو ڈھیری جولگرام ملاکنڈ کے شیر مالک نامی شخص کے بیٹے نے اغواء کیا,اور اُسکو آگرہ گاؤں بھگا کر لے گئے ,ملاکنڈ پولٹیکل انتظامیہ (مسٹر بیسٹ) نے آگرہ کے مشران اور ملکان کو پیغام بیھجا.کہ اس ہندو لڑکی اور لڑکے کو ہمارے حوالہ کیا جائے.لیکن آگرہ گاؤں کے مشران اس بات پر تیار نہ ہوئے.اور اُنہوں نے ہندو لڑکی اور لڑکے کو پولیٹیکل انتظامیہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا. جس پر پولٹیکل ایجنٹ مسٹر بیسٹ نے آگرہ گاؤں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا.اسی دوران افغانستان (علینگر کے ایک فقیر) نے لشکر جمع کرکے برٹش سامراج کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آگرہ کے اُتمانخیلوں کا ساتھ دیا..آگرہ کے مقام پر برٹش انڈین سپاہیوں اور اُتمانخیل کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئی.ملاکنڈ ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ مسٹر بیسٹ خود آگرہ گاؤں روانہ ہوئے ,تاکہ آگرہ گاؤں کے مشران سے پھر اُس ہندو لڑکی اور لڑکے کو واپس لائے.لیکن مسٹر بیسٹ نہیں جانتا تھا کہ ایک پشتون غازی محمد اُتمانخیل بابا کے ہاتھ اُسکی موت لکھی گئی تھی.. غازی محمد اُتمانخیل بابا نے گھر کے بُرج سے سنانئپر ہوکر مسٹر بیسٹ کو گولی ماردی اور موقع پر ہی وہ مر گئے..مسٹر بیسٹ کی لاش پھر ہریانکوٹ گاؤں لائی گئی.اور یہاں سے پھر پشاور کے گورا قبرستان پہنچا کر دفن کردی گئی.مسٹر بیسٹ کی موت کے بعد آگرہ کے مشران نے اُس ہندو لڑکی اور لڑکے کو پولیٹیکل انتظامیہ کے حوالے کیا..ہندو لڑکی چونکہ اپنی مرضی سے شیر مالک کے بیٹے کے ساتھ بھاگ گئی تھی.اور وہ واپس اپنے گھر جانا نہیں چاہ رہی تھی.لیکن اُس ہندو لڑکی کو ماں باپ زبردستی اپنے گھر لے گئے,اور اُس ہندو لڑکی کی جگہ دوسری بہن کو ملاکنڈ انتظامیہ کے سامنے یہ بیان دینے کے لئے پیش کیا,کہ اُسے شیر مالک کے بیٹے نے زبردستی اغواء کیا تھا..اسلئے شیر مالک کے بیٹے کو قید کی سزا سُنائی گئ. مسٹر بیسٹ کی موت کے بعد برٹش سامراج نے آگرہ میں قلعہ کی تعمیر بھی کی.(جو پھر 1938 میں ملاکنڈ لیویز کے حوالہ کی گئ).اسی دوران برٹش سامراج نے آگرہ و ٹوٹئی کے اُتمانخیلوں پر ہوائی جہازوں سے بھی بمباری کی.بعد میں برٹش سامراج نے ہریانکوٹ,کوٹ و مینہ کے گاؤں سے سڑک گُزار کر ٹوٹئی آگرہ پُہنچائی.آگرہ کی جنگ کے بعد برٹش سامراج نے پڑانگ غر کی طرف نظریں مرکوز کی ,چونکہ اُتمانخیل کا لشکر کئ محاذوں پر برٹش سامراج کے خلاف برسرِ پیکار تھا.اسلئے پڑانگ غر کے محاذ پر اُتمانخیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا.. نوٹ.. یہاں آپ کو یہ بھی بتائے حاجی صاحب تُرنگزئی نے بھی آگرہ کی مشہور لڑائی میں اُتمانخیل قبیلے کا ساتھ دیا تھا. 1936 میں صوبہ سرحد کے گورنر گریفتھ نے پھر تمام قبائل کے ساتھ جنگ بندی کرنے کے لئے صُلح مشورے شروع کئے. اور 1936 کے آواخر میں پھر برٹش سامراج کے خلاف قبائلی حملوں کا سلسلہ ماند پڑ گیا.. جنگ امبیلہ اور اتمانخیل فرہاد علی خاور کچھ یوں بیان کر تھے ہیں کہ. قبائل پہاڑی مورچے کو دوبارہ حا صل کرنے کے لئے بیتاب تھے انگریز جو پہاڑی مورچے میں موجود تھے انتہائی خوفزدہ تھے ۳۰ اکتوبر کو باجوڑ کا لشکر بھی پہنچا اور اَتے ہی پہاڑی مورچے پر قبضے کلئے دیوانہ وار پہاڑی پر چڑھ دوڑے پر حملہ شام کوشروع ہوا اور صبح صادق تک بغیر کسی وقفہ کے جاری رہا. پختون مورچے پر قبضے کے لئے جان کی بازی لگارہے تھے. دونوں جانب کے لئے سنکڑوں لاشیں میدان جنگ میں بکھرے پڑے تھے. پوری پہاڑی خون سے لالہ زار ہو چکی تھی انگریز بہت پریشان حال نظر آرہے تھے توپ خانے کا مسلسل استمعال کرتے رہے. چمیبرلیں بزات خود انگریزی فوج کی قیادت کر رہا تھا نماز فجر کے وقت فائرنگ روک دی گئ قبائل صلاح مشورے کے لئے جمع ہو یے مزید قبائلئ بھی پہنچ گئے انگریزوں کی طرف سے لاشیں اُٹھانے کی دعوت دی گئ لیکن قبائل نے فیصلہ کیا کہ جب تک اس خونی پوست پر قبضہ نہ کیا جائے شہیدوں کی لاشیں نہیں اُوٹھائی جائے گیے.۱۰ بجے پختون آیک بار پھر اللہ اکبر کے نعرے لگا تے ہوئے پہاڑی پر چڑھ دوڑے.اُوپر سے انگریز وںےزبردست فائرنگ شروع کی لاشیں کر تی رہیں اور پختون آگے بڑھتے گیے دوپہر تک قبائل پیلکٹ پہنچ گئے اور انگریز یہ صورتحال دیکھ کر مورچہ خالی کرکے بھاگنے لگے بھاگتے ہوے انگریز فوج کا زبردست جانی نقصان ہوا اور پوری پہاڑی لاشوں سے بھر گئ . پختون سربازوں کی لاشیں اور انگریزوں کی لاشیں ایک ہی پہاڑی پر ہزاروں کی تعداد میں پڑی تھیں .پہاڑی چوتی جس کو انگریزوں نے گریک کا نام دیا تھا پختونوں نے قبضہ تو کیا لیکن انگریزوں کےلئے بھی یہ زندگی اور موت کا مسلہ بن گیا کیونکہ اس پوست کے نیچے انگریزوں کا کیمف تھا اس چوٹی پر قبصہ انگریزوں کی تباہی تھی لہزا چمیبرلین نے زندگی کا خطرناک فیصلہ کیا اور گریک پر قبضے کے لے فوج کو صفوں میں کھڑا کیا اور توپ خانے کو لاکر کھڑا کیا چمیبرلین بزات خود میدان میں تھا اس نے فوج کو ایک محتصر تقر یر کی اور کہا فیصلے کا وقت اگیا ہے ایک طرف تلوار، کلہاڑیوں اور تیروں سے مسلح نا تجربہ کار قبائلی لشکر اور دوسری جانب توپ خانے اور جدید اسلحہ سے لیس ایک تجربہ کار آرمی ہے جو تعداد میں قبائل سے زیادہ ہیں . اسیی حالت میں انگریزوں کی شکست انگریز سرکار کیسے برداشت کرے گی لہزاجان کی بازی لگا کر گویک کو قبائل سے آزاد کرنا ہے. چمیبرلین سے سپاہیوں کی رائفلوں پر سنگین چڑانے کا حکم دیا اور توپ خانے کو گرکریک پیلک پراندھا گولی باری کا حکم دے دیا اور کولہ باری کے دوران انگریز آرمی آگے بڑھنے لگی پختون بھی سربازی کے لے آگے بڑھنے گھمسان کارن پڑا.آگ اور خون کی ہولی میں ہزاروں لوگ جان کی بازی ہار گئے. چمیبرلین خود بھی زخمی ہوکر میدان جنگ سے باہرلے جایا گیا.توپ خانے کی کامیاب گولی بھاری ......اس جنگ میں ۳ ہازار باجوڑی شریک ہوے تھے جو کہ اُتمانخیل تھے مجد علی اُتمانخیل کی ڈائری سے.. ضلع پشاور کے علاقہ خلیل مترہ کے دو ارباب ایک کا نام اجون اور دوسرے کا نام سردار خان تھا.ان میں سردار خان نوعمر اور اجون خان بڑا تھا,صولتِ افغانی کے مطابق یہ دونوں بُہت بہادر اور شجاعت میں اپنی مثال آپ تھے.1850 میں برٹش سامراج نے میچنئی کے علاقے پر جو حملہ کیا تھا وہ خلیل قبیلے کے علاقوں میں سے گُزر کر کیا تھا.میترہ گاؤں میچنئی کے راستے میں آتا ہے.یہ دونوں ارباب خلیل قوم کے غازیوں کو لیکر مہمند قبیلے کی مدد کو گئے تھے.پھر جب جنگ ختم ہوئی تو دونوں ارباب اپنے علاقے کو واپس آنے کے بجائے اُتمانخیل قبیلے کے علاقوں گنڈھیرئ اور پڑانگ غر میں رہائش اختیار کر گئے.اور وہاں برٹش سامراج پر ایک دوسرے حملے کرنے کی تیاری کرنے لگے.اُس زمانے میں سوات,بونیر,چملہ آمازئی ہزارہ اور سمہ رانزئی کے علاقوں میں سید اکبر شاہ بادشاہ کی سرکردگی میں قبائلی عوام برٹش سامراج کے خلاف سرگرمِ عمل تھے.اجون خلیل نے سید اکبر شاہ سے صلاح مشورہ کیا, جسکے نتیجے میں سید اکبر شاہ نے ھشتنگر اور سمہ رانزئی سے لشکر اجون خان کی مدد کو بھیجی. یہ 2 اپریل 1852 کی تاریخ تھی جب اُُتمانخیل بشمولِ دوسری قبائلی لشکر نے ھشتنگر کے مرکزی مقام چارسدہ میں برٹش سامراج پر حملہ کیا,یہاں سرکاری عمارتوں کو تباہ کیا گیا صولتِ افغانی کے مطابق کُل ھشتنگر میں کُہرام مچ گیا,اس کامیاب حملے کے بعد لشکر واپسی کی راہ لیکر چل پڑا. چونکہ اس حملے میں اُتمانخیل قوم کے غازی بڑھ چڑھ کر لڑے اسلئے برٹش سامراج نے پھر اُتمانخیل قبیلے کے خلاف مُہم جوئی شروع کرنے کا فیصلہ کیا.مئ 1852 میں برٹش سامراج نے قبیلہ اُتمانخیل کے خلاف اعلانِ جنگ کیا.اور باجوڑ خار کے اُتمانخیل قبیلے کے مرکزی مقام ناوے ڈنڈھ پر حملہ کردیا.سر جارج ینگ ہزبنڈ لکھتے ہیں.کہ کرنل کولن کیمپبل کی کمان میں ایک بریگیڈ فوج ناوے ڈنڈھ پر حملہ آور ہوئی اس مقام کی تعریف یہ ہے,کہ برٹش سامراج کے خلاف اُتمانخیل قبائلی لشکر نے جتنے بھی حملے ماضی میں کئے وہ ناوے ڈنڈھ کے علاقے سے کئے.اس علاقے کے چاروں اطراف میں ایک پختہ قلعہ موجود تھا. اسلئے برٹش سامراج کے لئے اس قلعہ کو فتح کرنا ناممکن تھا.پھر جب مئ 1852 میں برٹش سامراج نے ناوے ڈنڈھ پر حملہ کردیا اور وہ اس قلعہ کے قریب پُہنچ کر پڑاؤ ڈالنے لگے تو اُسی دوران قلعہ سے اُتمانخیل قبائلی جنگجؤو نے حملہ آور ہوکر برٹش فوج کے اوسان خطا کردئے,ینگ ہزبنڈ لکھتے ہیں.انگریزوں پر حملہ کرنے اور اُنکے خیموں پر بلائے ناگہانی کی طرح ٹوٹ پڑنے کی غرض سے نکلے,یہ سپاہی گو شکستہ حال تھے مگر مضبوط دل اور بازو قوی رکھتے تھےاور اُنکا اسلحہ بھی ہمارے ہتھیاروں سے کسی طرح کم نہ تھا.انگریز پہرہ داروں نے فوراً اُنکی روانگی کی اطلاع دی مگر فوج کو مسلح ہونے اور سامان لینے اور صف بستہ ہونے میں دیر لگی,برخلاف اسکے سرحد کے جری افغان آندھی اور بھونچال کی طرح ایسے آنے لگےکہ دل سینوں میں دہل ہونے لگے.ایک انگریز آفسر جی این ہارڈنگ نے بڑی بہادری دکھاکر اپنی رجمنٹ کو کسی نہ کسی طرح بچایا.جنگ ختم ہوئی اور برٹش فوج شکست خوردہ ہوکر چلی گئ.انگریز فوج نے جس خیال سے ناوے ڈنڈھ پر قبضہ کرنے اور اسے زیر کرنے کی غرض سے جو حملہ کیا تھا وہ ناکام ہوچکا تھا.انگریز پھر ناوے ڈنڈھ سے واپسی کی راہ لیکر دروازگئی نامی مقام میں داخل ہوئی اور یہاں سے پھر کوٹ,مینہ,ٹوٹئی آگرہ نامی پہاڑی علاقوں سے گُزر کر آگے ہشتنگر کے مشہور مقام تنگئ میں خیمہ زن ہوگئے.. کہانی جاری ہے.....تحریر...امجد علی اُتمانخیل.. (گمنام ھیرو طرہ باز خان اتمانخیل) ۱۸۵۷کی جنگ ازادی کا ایک گمنام ھیرو طرہ باز اتمانخیل ہے تعلق باجوڑ سے تہا ۱۶جولائ۱۸۵۷ کو انگریز ریزیڈنسی پر حملہ اور ہوا زخمی حالت میں گرفتار ہوے اور کالا پانی کی سزا پائ جنوری۱۸۵۸ کو جیل سے بھاگ گئے انگریز نے تعاقب کیا مقابلہ شروع ہوا ایک طویل مقابلے کے بعد شہید ہوے شہادت کے بعد تلاشی پر اپ کے قبضے سے دو تلوارے ایک پستول اور دس روپے برامد ہوے ما خز (گمنام پختون ھیروز .قبیلہ اُتمانخیل کے علاقوں کے حدود شمال میں باجوڑ ( خوانین خار و جار کے علاقوں تک) اور جندول تک,مشرق میں دریائے پنجکوڑہ تک اور اسکے جنکشن دریائے سوات تک اور جنوب میں برٹش سامراج کے زیرِ کمان علاقوں اشنغر اور مشرق میں ناؤگئ باجوڑ تک پھیل چُکے ہیں.دریائے پنجکوڑہ جو دیر سے بجانبِ جنوب بہتا ہے,اور یہ ارنگ نامی علاقے کے ساتھ ایک سرحدی لکیر بناتا ہے, گاؤں آگرہ اور سیلیئ پٹے کے قُرب و جوار میں دریائے پنجکوڑہ دریائے سوات کے ساتھ شامل ہوتا ہے,اور ایک مشترک دریا کی صورت میں مغرب کی جانب بہتا ہوا 20 میل کے علاقے میں اُتمانخیل کے علاقوں ارنگ,برنگ, اور امبار کو دامان سے جُدا کرتا ہے.پس اُتمانخیل کا علاقہ دریائے سوات کے دونوں جانب واقع ہے. شمالی حصہ زیادہ تر پہاڑی ہے جس میں کوہِ مور پہاڑ کی اُونچائی 8200 میٹر ہے,یہاں شمال میں مندل,علیزئی اور متکی قبائلی لوگوں کے گھر واقع ہیں.جبکہ مشرق اور جنوب مشرق کی جانب یہ پہاڑ ارنگ,برنگ,امبار شموزئی اور اصیل کے لوگوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے.جنوب کی جانب دریائے سوات اور برٹش سامراج کے زیرِ کمان علاقوں کے درمیان موجود علاقہ لمن یا دامان کہلاتا ہے جو کہ مغرب سے مشرق کی جانب خانوڑئی گاؤں کے پہاڑ سے شروع ہوکر پڑانگ غر اور پھر کوٹ ,مینہ,ہریانکوٹ اور گڑھی عُثمانخیل کے علاقوں تک پھیل گیا ہے.یہ سب لمن یا دامان کے اُتمانخیل کہلاتے ہیں,جو ان علاقوں میں رہائش پزیر ہیں. اسی طرح ہزارناؤ کے جنوبی چٹانیں دامان کو ٹوٹئ گاؤں سے جُدا کرتی ہے,جہاں سنیزئی,پیغزئی اور بھبرئ آباد ہیں,جو اُتمانخیل کی ذیلی شاخیں ہیں. نام لمن یا دامان کا معنی میدانی علاقہ کے ہے جو نہری نظام کے درمیان واقع ہوتا ہے.اُتمان بابا کی اولاد میں سے جو بڑی ذیلی شاخوں کی اولاد ان علاقوں میں پھیل گئی ہیں اُن میں اسماعیلزئی,مندل,علیزئی,متکی,گوری,ُغز,بھمبری,سنیزئی پیغزئی شامل ہیں. رپورٹ جاری ہے.. تحریر..امجد علی اُتمانخیل قبیلہ اُتمانخیل کی ذیلی شاخ اسماعیلزئی جو دو شاخوں شموزئی اور اصیل میں مُنقسم ہیں,اور برٹش گورنمنٹ کے ساتھ انکے مراسم بہتر ہے.شموزئی شاخ کے لوگ آرنگ نامی علاقے میں آباد ہیں,انکی تعداد چھ ہزار سے آٹھ ہزار تک ہے اور جیزل استعمال کرتے ہیں.انکوں پھر اور ذیلی شاخوں عُمر خیل,سرکانی خیل,سرنی خیل اور پئیندہ خیل میں تقسیم کیا گیا ہیں.اصیل نامی اُتمانخیل سب سے مشہور ہے,اس شاخ کے لوگ برنگ نامی علاقے اور کُچھ جو (دینی خیل) کہلاتا ہے,وہ لمن یا دامان میں آباد ہیں.اصیل کی دو شاخیں ہیں ایک بادو کہلاتا ہے اور دوسرا بالو,یہ دو بیویوں کی اولاد ہیں. بادو نامی اصیل مندرجہ ذیل شاخوں میں تقسیم ہیں. واڑہ خیل,خُمار خیل اور بُت کور. ان میں سے خُمار خیل کی ذیلی شاخیں مدک اور پئندہ خیل کہلاتی ہے, مدک شاخ پھر عُمر خیل, گُڈ خیل,شہزادہ,ذادو اور پارشئی میں مُنقسم ہیں. جبکہ پئندہ خیل پھر خادی,آدم,بائی,اور مُحبت کی شاخوں میں تقسیم ہیں. اسطرح بُت کور مندرجہ ذیل شاخوں محمد خیل,عُمرخیل اور موسی میں مُنقسم ہیں. ان شاخوں میں سے محمد خیل پھر شاتی,آدم اور عیسیٰ میں مُنقسم ہیں, جبکہ عُمر خیل خود , خان,اکو,بانی,صالح,شہداد,پاخانی,اور کریم نامی شاخوں میں مُنقسم ہیں. اسطرح بالو اصیل نامی اُتمانخیل,امبار,صیب الدین, طوری خیل,صد بیگ,مُغل خیل,شینو,غازی, وغیرہ نامی ذیلی شاخوں میں مُنقسم ہیں. اصیل اُتمانخیل کی بڑی تعداد برنگ نامی علاقے میں رہائش پزیر ہیں.جو دریائے سوات سے آگے آرنگ اور امبار کے علاقوں تک پھیل چُکے ہیں.بُت کور نے امبار کو آماجگاہ بنایا ہے, عُمر خیل دریائے سوات اور لمن کے درمیانی علاقے میں رہائش پزیر ہیں.دینی خیل نامی اصیل ناؤے ڈنڈ نامی علاقے میں رہائش پزیر ہیں,اور عُمر خیل پڑانگ غر میں آباد ہیں. اسطرح قبیلہ اُتمانخیل کی مندل نامی شاخ امبار اور باجوڑ کے درمیان آباد ہیں. ان کا برٹش سامراج کے ساتھ کوئی قریبی تعلق نہیں. مندل پھر مندرجہ ذیل ذیلی شاخوں سواڑخیل,موتا,گڈو اور ڈاپر میں مُنقسم ہیں,ا قبیلہ اُتمانخیل میں سنیزئی نامی شاخ کو زیادہ تر لوگ اُتمانخیل نہیں سمجھتے. لیکن یہ شموزئی کے قریب ہیں.یہ ہزار ناؤ نامی پہاڑ کے شمالی جانب برہ ٹوٹئی اور کوٹ نامی علاقوں میں آباد ہیں, اس شاخ کا تمام واسطہ رانیزئی قبیلے کے ساتھ ہے,جبکہ اُتمانخیل قبیلے کے دوسری شاخوں کے ساتھ اسکا واسطہ بُہت کم ہے. رپورٹ جاری ہے. تحریر ..امجد علی اُتمانخیل

Post a Comment

0 Comments