۔ملاکنڈ پیڈیا
۔اگر کبھی آپ پشاور تہکال کے عیسائی قبرستان کی وزٹ کریں تو وہاں آپ کو۔ ملاکنڈ ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ لیزلی ولئیم ہزلٹ ڈنکن بیسٹ کی قبر بھی نظر آئے گی۔لیزلی ولئیم ہزلٹ ڈنکن بیسٹ جو اگرہ مالاکنڈ ایجنسی میں اپنی زندگی کی بازی ہارے ۔
Liesly William Hazlett Duncan Best O.B.E.M.C who was killed in action in Agra Malakand Agency,was a private secretary in Indian civil Service Recipient of The order Of The British Empire and Military Cross.
تاریخ کو یاد رکھنا ہے.1930 میں جب سیاسی تحریکوں کا اثر قبائلی علاقوں تک پھیلنے لگا,تو اُتمانخیل کا علاقہ بھی اسِ کے زیرِ نگیں آیا ,ارنگ برنگ اصیل کے اُتمانخیل اور امبار بُوٹ کور کے اُتمانخیل آگرہ اور پڑانگ غار کے علاقوں تک آئے,اور ھشتنگر کے سرحد جیندری خوڑ کے کنارے مورچے سنبھالے ,برٹش سامراج نے فوراً انکے خلاف لشکر کشی کی, آگرہ اور پڑانگ غر کے مقامات پر جنگیں لڑی گئ.آگرہ کے مقام پر جو جنگ لڑی گئ اُسکی کہانی یوں ہے..اس وقت آپ تصویر میں ملاکنڈ ایجنسی کے پولٹیکل ایجنٹ L.W.H.D Best کی قبر دیکھ رہے ہے.. آپکا پورا نام لیزلی ولیم ہیزلٹ ڈنکین بیسٹ ہے,اور آپ7جنوری 1933 تا 11 اپریل 1935 تک ملاکنڈ ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ رہے..آپ کو موت کا فرشتہ ملاکنڈ سے آگرہ گاؤں لے آیا. یہ کہانی یوں ہے ,کہ جب ملاکنڈ لیویز فورس کے دو چیک پوسٹ پہلے پہل 1914 اور 1935 میں ملاکنڈ ایجنسی کے گاؤں کوٹ اور آگرہ میں قائم کئے گئے,تو ان چیک پوسٹو ں کی وساطت سے پھر برٹش سامراج نے کوٹ ,آگرہ,ٹوٹی ,سیلئ پٹے کے علاقوں پر Raids کئے .ان حملوں کی وجہ یہ تھی.کہ ایک ہندو لڑکی کو ڈھیری جولگرام ملاکنڈ کے شیر مالک نامی شخص کے بیٹے نے اغواء کیا,اور اُسکو آگرہ گاؤں بھگا کر لے گئے ,ملاکنڈ پولٹیکل انتظامیہ (مسٹر بیسٹ) نے آگرہ کے مشران اور ملکان کو پیغام بیھجا.کہ اس ہندو لڑکی اور لڑکے کو ہمارے حوالہ کیا جائے.لیکن آگرہ گاؤں کے مشران اس بات پر تیار نہ ہوئے.اور اُنہوں نے ہندو لڑکی اور لڑکے کو پولیٹیکل انتظامیہ کے حوالے کرنے سے انکار کیا. جس پر پولٹیکل ایجنٹ مسٹر بیسٹ نے آگرہ گاؤں پر حملہ کرنے کا ارادہ کیا.اسی دوران افغانستان (علینگر کے ایک فقیر) نے لشکر جمع کرکے برٹش سامراج کے خلاف جنگ کرنے کے لئے آگرہ کے اُتمانخیلوں کا ساتھ دیا..آگرہ کے مقام پر برٹش انڈین سپاہیوں اور اُتمانخیل کے درمیان جھڑپیں شروع ہوئی.ملاکنڈ ایجنسی کے پولیٹیکل ایجنٹ مسٹر بیسٹ خود آگرہ گاؤں روانہ ہوئے ,تاکہ آگرہ گاؤں کے مشران سے پھر اُس ہندو لڑکی اور لڑکے کو واپس لائے.لیکن مسٹر بیسٹ نہیں جانتا تھا کہ ایک پشتون غازی محمد اُتمانخیل بابا کے ہاتھ اُسکی موت لکھی گئی تھی.. غازی محمد اُتمانخیل بابا نے گھر کے بُرج سے سنانئپر ہوکر مسٹر بیسٹ کو گولی ماردی اور موقع پر ہی وہ مر گئے..مسٹر بیسٹ کی لاش پھر ہریانکوٹ گاؤں لائی گئی.اور یہاں سے پھر پشاور کے گورا قبرستان پہنچا کر دفن کردی گئی.مسٹر بیسٹ کی موت کے بعد آگرہ کے مشران نے اُس ہندو لڑکی اور لڑکے کو پولیٹیکل انتظامیہ کے حوالے کیا..ہندو لڑکی چونکہ اپنی مرضی سے شیر مالک کے بیٹے کے ساتھ بھاگ گئی تھی.اور وہ واپس اپنے گھر جانا نہیں چاہ رہی تھی.لیکن اُس ہندو لڑکی کو ماں باپ زبردستی اپنے گھر لے گئے,اور اُس ہندو لڑکی کی جگہ دوسری بہن کو ملاکنڈ انتظامیہ کے سامنے یہ بیان دینے کے لئے پیش کیا,کہ اُسے شیر مالک کے بیٹے نے زبردستی اغواء کیا تھا..اسلئے شیر مالک کے بیٹے کو قید کی سزا سُنائی گئ. مسٹر بیسٹ کی موت کے بعد برٹش سامراج نے آگرہ میں قلعہ کی تعمیر بھی کی.(جو پھر 1938 میں ملاکنڈ لیویز کے حوالہ کی گئ).اسی دوران برٹش سامراج نے آگرہ و ٹوٹئی کے اُتمانخیلوں پر ہوائی جہازوں سے بھی بمباری کی.بعد میں برٹش سامراج نے ہریانکوٹ,کوٹ و مینہ کے گاؤں سے سڑک گُزار کر ٹوٹئی آگرہ پُہنچائی.آگرہ کی جنگ کے بعد برٹش سامراج نے پڑانگ غر کی طرف نظریں مرکوز کی ,چونکہ اُتمانخیل کا لشکر کئ محاذوں پر برٹش سامراج کے خلاف برسرِ پیکار تھا.اسلئے پڑانگ غر کے محاذ پر اُتمانخیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا.. نوٹ.. یہاں آپ کو یہ بھی بتائے حاجی صاحب تُرنگزئی نے بھی آگرہ کی مشہور لڑائی میں اُتمانخیل قبیلے کا ساتھ دیا تھا. 1936 میں صوبہ سرحد کے گورنر گریفتھ نے پھر تمام قبائل کے ساتھ جنگ بندی کرنے کے لئے صُلح مشورے شروع کئے. اور 1936 کے آواخر میں پھر برٹش سامراج کے خلاف قبائلی حملوں کا سلسلہ ماند پڑ گیا..
تحقیق.. امجد علی اُتمانخیل. بحوالہ. ہمارے مُجاہدین از عبدالحلیم اثر افغانی.
Custodian of Malakand by Shams ur Rahman Shams.
0 Comments