*ایک گمنام پختون ہیرو غازی فضل الرحمن المعروف لالی خان*
غازی فضل الرحمان قبائلی علاقے باجوڑ قلعہ ٹوپ مرخنئ سن 1908 میں جمال داد کے علمی، روحانی، معزز اور پختون گھرانے میں پیدا ہوئے. قبیلے کے لحاظ سے اتمان خیل ، ماندل مامد خیل تھے. فضل الرحمان بچپن سے ایک زیرک ، شاطر اور ذہین انسان تھے چونکی باجوڑ ایک پسماندہ علاقہ تھا تو والدین نے بہتر مستقبل کی خاطر اسے کراچی بھیج دیاـ کراچی میں اس نے تعلیم کے ساتھ ساتھ روزگار بھی کیا اور پھر کاروبار کے سلسلے میں بمبئی چلا گیا. شـــاید غازی فضل الرحمان وہ شخص تھا جس نے اپنے مقدر کے بہتر فیصلے کئے.
ممبئی میں اس نے کاروبار میں خوب کمائی کی اور تجارتی اور کاروباری لحاظ سے اپنے آپ کو منوایا. اس نے زندگی کا لمبا عرصہ ممبئ میں گزار دیا اور اندازتاََ پندرہ سولہ سال تک قیام کیا. چونکہ اس دوران پاک و ہند میں بہت سارے تحریکات رہے تھے اور ہندو مسلمان اپنے لئے ایک آزادانہ ملک کے لیے کوشاں تھے اور اسی وجہ سے حالات روز بروز بگڑتے تھے ایک طرف انگریز اور دوسری طرف ہندو مسلم فسادات نے امن کو بہت نقصان پہنچایا تھا اور جب برصغیر پاک وہند کے مقدر کا فیصلہ ہوا اور پاکستان معرضی وجود میں آگیا تو بہت سارے مسلمانوں نے سرزمین پاکستان کو ہجرت کیا.
غازی فضل الرحمن نکیال سرحد کے راستے بہت سارے مشکلات میں اپنے آبائی وطن کو پہنچ گیا۔
دوران ہجرت اس نے بہت کچھ اپنے آنکھوں سے دیکھا اور بہت سارے غریبوں اور مہاجروں کے لئے آسرا اور امید بنے اور ہجرت کے دوران اس نے بہت سارے مہاجروں اور غریبوں کا مالی مدد کیا.
چونکہ غازی فضل الرحمان ایک بے چین طبیعت کے مالک تھے اور ہندو مسلم فسادات اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے.
تو اس دوران اس کے دل میں مسلمانوں اور سرزمین پاکستان کے لیے جانثاری اور حب الوطنی کے جذبے نے گھر کر لیا تھا. یہاں آ کر وہ اپنے علاقے باجوڑ میں قیام پذیر ہوئے.
اس دوران سرزمین کشمیر پر موجودہ انڈیا اور پاکستان کی کشمکش چل رہی تھی دو نئے خود مختار ممالک نے پہلی پاک و ہند جنگ first indo pak 1947ــ1948 war
یا جنگ کشمیر kashmir war میں اپنے عوام اور افواج دھکیل دیے تھے.
اس جنگ میں پاکستان کے پختون قبائل کی لازوال اور بے مثال قربانیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں پاکستان نے موجودہ پختونخوا کے علاقوں سے بڑے بڑے لشکر Milities تیار کیے اور اس کی بدولت موجودہ آزاد کشمیر کو اپنے نام کیا. اس وقت کشمیر کے راجہ ہری سنگ Hari sing تھے اور اپنے اختیارات انڈیا کے حق میں کھو دیے تھے. قبائلی علاقوں میں چونکہ تعلیم اور لکھے پڑھے لوگوں کی کمی تھی چنانچہ حکومتی پاکستان نے غازی فضل الرحمان کو کشمیر جنگ کے لئے آمادہ کیا وہ قائدانہ صلاحیتوں کے مالک تھے اور پاکستان کو ایسے ہی لوگوں کی ضرورت تھی.
غازی فضل الرحمان المعروف لالی خان نے باجوڑ , دیر اور دیگر علاقوں کے مختلف گاوں, قصبوں کے دورے کئے اور لوگوں کو جنگی کشمیر کےلئے آمادہ کیا اور پختون قبائل کا ایک بڑا *لشکر Milities* تیار کیا خود قیادت کی اور قبائلی لشکر کے ساتھ کشمیر پہنچ گیا. اور یوں اس نے ایک قائد کی حیثیت سے جنگ میں حصہ لیا. اس جنگ میں اس کے ساتھ پختون قبائل کے علاوہ *چودھری شاہ ولی جٹ ، احمد علی شاہ اور خان آف منگ* بھی شامل تھے. اور یوں میرپور پر حملہ کر کے ہندو اور سکھوں کے تسلط سے آزاد کیا.
انیس سو سینتالیس 1947 میں جنگی کشمیر سے قبل میر پور میں تقریباََ 75000 ہندو اور سکھ اباد تھے. جو کی آبادی کا 20 فیصد تھے اور یہ سارے اکثریتی لحاظ سے میرپور mirpur کوٹلی kotli اور بیمبر Bimbar کے شہروں میں رہتے تھے. لیکن قبائلی قوتوں نے 7 نومبر 1947 کو میرپور پر قبضہ کرنے سے پہلے راجوری کے علاقے فتح کرلئے تھے.
25 نومبر کی صبح قبائلی لشکروں نے میرپور شہر میں جنگ کے دوران داخل ہو کر شہر کے مختلف حصوں کو آگ لگا دی جس سے بڑے پیمانے پر ہنگامہ آرائی ہوئی پورے شہر میں افراتفری پھیل گئی اور بہت سارے ہندو اور سکھوں کو گولیوں ، ہتھوڑوں ، تلواروں اور چاقو سے پختون قبائل اور دیگر غازیوں نے موت کے گھاٹ اتار دیے.
*غازی فضل الرحمن لالی خان وہ پہلے شخص تھے جس نے میرپور قلعہ پر پاکستانی جھنڈے کو منگلا کے اوپر لگایا. اور یہ اعزاز اپنے نام کیا.* حکومتی پاکستان نے فضل الرحمن کے بے مثال جوانمردی، ہمت ، شجاعت ، بہادری اور قائدانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر تمغہ پاکستان کے ساتھ ساتھ توصیفی اسنادو سے نوازا اور گارڈ آپ انار پیش کیا. اس جنگ میں غازی فضل الرحمن المعروف لالی خان بری طرح زخمی ہوا تھا لیکن وہ غازی تھا اور پختون قبائل کے ساتھ نئے عزم اور شان و شوکت کے ساتھ زندہ رہا اس کی عزت اور حوصلہ افزائی کے لئے حکومت پاکستان نے ان کو بہت ساری زمین میرپور میں دی اور اس کے ساتھ ساتھ آزاد جموں و کشمیر کے پہلے درجہ کی شہری
"First class citizen"
حیثیت دی.
غازی فضل الرحمان پھر پرانے میرپور پاکستان محلے میں رہائش پذیر ہوا.
چونکہ اس کے مزاج میں خداترسی ، انسانیت روز اول سے تھی تو اس نے اپنی ذاتی آمدنی سے میر پور بس سٹاپ پر ایک ہوٹل بنایا اور اس ہوٹل کی آمدنی سے فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا بہت سارے غریبوں، مفلسوں ، بیواؤں ، یتیموں اور لاچاروں کا مدد کیا اور ساری زندگی خدمت خلق خدمت کے لئے وقف کیا 1965 کی جنگ میں ایک بار پھر اس کی ضرورت حکومت پاکستان کو پیش آئی اس نے 65 کی جنگ کے لئے بہت سے لوگوں کو آمادہ کیا اور خود بھی شرکت کی انیس سو پینسٹھ 1965 کی جنگ میں میں اس کا ایک قابل ذکر کارنامہ یہ ہے کہ پاکستانی فوج کو افرادی قوت کے ساتھ ساتھ مالی مدد بھی کیا اور اپنے طرف سے جنگ کے فوجیوں، پناہ گزینوں اور غازیوں کو ایک ہفتے کا راشن فراہم کیا حکومت پاکستان نے ایک بار پھر اس کے کارناموں اور کاموں کو سراہا اور ان کو اعزازی مڈل دیے. وہ اپنے ملک و قوم اور مٹی سے محبت کرنے والے ایک محب وطن بہادر اور غیرت مند پختون تھے وہ ایک افسانوی شخصیت اور قیادت کے غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے اس نے ساری زندگی ملک و قوم کی خدمت کی اور اس کا ایک اور بڑا ثبوت یہ ہے کہ اس نے 55 , 56 سال کی عمر میں شادی کی کیونکہ ذاتی زندگی اور ذاتی فائدوں کے لئے اس کے پاس اتنا وقت نہیں تھا. ان کے مزاج اور نفسیات پر خدمت خلق ـ انسانیت خدا ترسی اور غیرت کا جذبہ چھایا ہوا تھا یہ عظیم شخصیت انتیسویں جنوری 1979 کو دنیا سے رخصت ہوا۔
اللہ تعالی ان کو جنت میں اعلی درجات دے ہماری ایک ہمدردانہ اپیل حکومتی پاکستان اور اور نصاب سازوں سے یہ ہے کہ ان اصلی ہیرو کو نصاب کا حصہ بنایا جائے.
*تحریر و تحقیق طارق اتمان خیل دیر*
0 Comments